Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 4
- SuraName
- تفسیر سورۂ نساء
- SegmentID
- 273
- SegmentHeader
- AyatText
- {76} هذا إخبارٌ من الله بأنَّ المؤمنين يقاتِلون في سبيله، {والذين كفروا يقاتِلونَ في سبيل الطَّاغوت} الذي هو الشيطانُ. في ضمن ذلك عدة فوائد: منها: أنه بحَسَبِ إيمان العبد يكون جهاده في سبيل الله وإخلاصُه ومتابعته، فالجهادُ في سبيل الله من آثار الإيمان ومقتضياتِهِ ولوازمِهِ؛ كما أنَّ القتالَ في سبيل الطاغوت من شُعَبِ الكفر ومقتضياتِهِ. ومنها: أن الذي يقاتل في سبيل الله ينبغي له ويَحْسُنُ منه من الصبر والجَلَدِ ما لا يقوم به غيره؛ فإذا كان أولياء الشيطان يصبِرون ويقاتِلون وهم على باطل؛ فأهل الحقِّ أولى بذلك؛ كما قال تعالى في هذا المعنى: {إن تكونوا تألمونَ فإنَّهم يألَمونَ كما تَألَمونَ وترجُون من اللهِ ما لا يَرجونَ ... } الآية. ومنها: أن الذي يقاتِلُ في سبيل الله معتمداً على ركنٍ وثيقٍ، وهو الحقُّ والتوكُّل على الله؛ فصاحب القوة والرُّكن الوثيق يُطْلَبُ منه من الصبر والثَّبات والنشاط ما لا يُطْلَبُ مِمَّن يقاتِل عن الباطل الذي لا حقيقة له ولا عاقبة حميدة؛ فلهذا قال تعالى: {فقاتِلوا أولياءَ الشَّيطانِ إنَّ كيدَ الشيطانِ كان ضعيفاً}؛ والكيدُ سلوكُ الطرق الخفيَّة في ضرر العدو؛ فالشيطانُ وإن بَلَغَ مكرُهُ مهما بَلَغَ؛ فإنه في غاية الضَّعْفِ الذي لا يقوم لأدنى شيءٍ من الحقِّ ولا لكيدِ الله لعبادِهِ المؤمنين.
- AyatMeaning
- [76] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر ہے کہ اہل ایمان اس کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ ﴿ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ ﴾ ’’اور کافر طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں‘‘ یہاں طاغوت سے مراد شیطان ہے۔ اس آیت سے متعدد فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ (۱) بندۂ مومن کے ایمان، اس کے اخلاص اور اس کی اتباع رسولeکے مطابق، اس کا جہاد اللہ کے راستے میں جہاد شمار ہوتا ہے۔ پس جہاد فی سبیل اللہ ایمان کے آثار، اس کے مقتضیات اور اس کے لوازم میں سے ہے۔ جیسے طاغوت کی راہ میں لڑنا کفر اور اس کے مقتضیات میں سے ہے۔ (۲) جو کوئی اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتا ہے اس کے لیے مناسب اور بہتر یہ ہے کہ وہ ایسے صبر و استقلال سے کام لے جس کا مظاہرہ دیگر لوگ نہیں کر سکتے۔ جب اولیائے شیطان لڑائی کرتے ہیں اور لڑائی میں صبر سے کام لیتے ہیں حالانکہ وہ اہل باطل ہیں۔ تب اہل حق کو تو صبر و استقلال سے زیادہ کام لینا چاہیے جیسا کہ اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ اِنْ تَكُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّهُمْ یَاْلَمُوْنَ كَمَا تَاْلَمُوْنَ١ۚ وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا یَرْجُوْنَ ﴾ (النساء : 4؍104) ’’اگر تمھیں تکلیف پہنچتی ہے تو جس طرح تمھیں تکلیف پہنچتی ہے اسی طرح ان کفار کو بھی تکلیف پہنچتی ہے۔ البتہ تم اللہ تعالیٰ سے ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے۔‘‘ (۳) وہ بندۂ مومن جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتا ہے اس کے پاس ایک مضبوط سہارا ہوتا ہے اور وہ ہے حق اور اللہ تعالیٰ پر توکل۔ اس مضبوط اور صاحب قوت ہستی سے صبر و ثبات اور نشاط طلب کیے جاتے ہیں۔ جبکہ باطل کے راستے میں لڑنے والے، جس کی کوئی حقیقت نہیں اور نہ اس کا کوئی قابل تعریف انجام ہے یہ صبر و ثبات کہیں سے طلب نہیں کر سکتے۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿ فَقَاتِلُوْۤا اَوْلِیَآءَؔ الشَّ٘یْطٰ٘نِ١ۚ اِنَّ كَیْدَ الشَّ٘یْطٰ٘نِ كَانَ ضَعِیْفًا﴾ ’’تم شیطان کے مددگاروں سے لڑو یقینا شیطان کا داؤ کمزور ہوتا ہے۔‘‘ (کید) سے مراد وہ خفیہ چال ہے جس کے ذریعے سے دشمن کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ شیطان کی چال خواہ کتنی ہی خطرناک کیوں نہ ہو، بہرحال وہ انتہائی کمزور ہوتی ہے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ حق کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ نہ وہ اس چال کے سامنے کھڑی رہ سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کے لیے چلتا ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [76]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF