Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
4
SuraName
تفسیر سورۂ نساء
SegmentID
269
SegmentHeader
AyatText
{66} يخبر تعالى أنَّه لو كَتَبَ على عباده الأوامرَ الشاقَّة على النفوس من قتل النفوس والخروج من الدِّيار؛ لم يفعلْه إلا القليلُ منهم والنادرُ؛ فَلْيَحْمَدوا ربَّهم ولْيَشْكُروه على تيسير ما أمَرَهم به من الأوامر التي تَسْهُلُ على كلِّ أحدٍ ولا يشقُّ فعلُها، وفي هذا إشارةٌ إلى أنه ينبغي أن يَلْحَظَ العبدُ ضدَّ ما هو فيه من المكروهات؛ لتخفَّ عليه العباداتُ، ويزدادَ حمداً وشكراً لربِّه. ثم أخبر أنَّهم لو {فعلوا ما يُوعَظونَ به}؛ أي: ما وُظِّفَ عليهم في كلِّ وقتٍ بحسبه، فبذلوا هممهم، ووفَّروا نفوسهم للقيام به وتكميله، ولم تطمح نفوسهم لما لم يَصِلوا إليه، ولم يكونوا بصدده، وهذا هو الذي ينبغي للعبد أن ينظر إلى الحالة التي يلزمُهُ القيام بها، فيكملها، ثم يتدرَّج شيئاً فشيئاً، حتى يصلَ إلى ما قُدِّر له من العلم والعمل في أمر الدين والدُّنيا، وهذا بخلاف من طمحتْ نفسُهُ إلى أمرٍ لم يصلْ إليه ولم يؤمرْ به بعدُ؛ فإنه لا يكاد يصل إلى ذلك بسبب تفريق الهمة وحصول الكسل وعدم النشاط؛ ثم رتَّب ما يحصُلُ لهم على فعل ما يوعظون به، وهو أربعةُ أمورٍ: أحدها: الخيريَّةَ في قوله: {لكان خيراً لهم}؛ أي: لكانوا من الأخيار المتَّصفين بأوصافِهِم من أفعال الخير التي أُمروا بها؛ أي: وانتفى عنهم بذلك صفة الأشرار؛ لأنَّ ثبوت الشيء يستلزم نفي ضدِّه. الثاني: حصول التثبيت والثبات وزيادتُه؛ فإنَّ الله يثبِّتُ الذين آمنوا بسبب ما قاموا به من الإيمان الذي هو القيام بما وُعِظوا به، فيثبِّتُهم في الحياة الدُّنيا عند ورود الفتن في الأوامر والنواهي والمصائب، فيحصُل لهم ثباتٌ يوفَّقون به لفعل الأوامر وترك الزواجر التي تقتضي النفسُ فعلها وعند حلول المصائب التي يكرهها العبدُ، فيوفَّق للتثبيت بالتوفيق للصبر أو للرِّضا أو للشكر، فينزل عليه معونةٌ من الله للقيام بذلك، ويحصُلُ لهم الثبات على الدين عند الموت وفي القبر. وأيضاً؛ فإن العبد القائم بما أمر به لا يزال يتمرَّن على الأوامر الشرعية حتى يألفَها ويشتاقَ إليها وإلى أمثالها فيكون ذلك معونةً له على الثبات على الطاعات.
AyatMeaning
[66] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اس نے اپنے بندوں پر شاق گزرنے والے احکام فرض کیے ہوتے مثلاً، اپنے آپ کو قتل کرنا اور گھروں سے نکلنا وغیرہ تو اس پر بہت کم لوگ عمل کر سکتے، پس انھیں اپنے رب کی حمد و ثنا اور اس کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسے آسان احکام نافذ کیے ہیں جن پر عمل کرنا ہر ایک کے لیے آسان ہے اور ان میں کسی کے لیے مشقت نہیں۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندۂ مومن کو چاہیے کہ اسے جو امور گراں گزرتے ہیں، وہ ان کی ضد کو ملاحظہ کرے تاکہ اس پر عبادات آسان ہو جائیں۔ تاکہ اپنے رب کے لیے اس کی حمد و ثنا اور شکر میں اضافہ ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر انھوں نے اس چیز پر عمل کیا ہوتا جس کی انھیں نصیحت کی گئی ہے، یعنی تمام اوقات کے مطابق ان کے لیے جو اعمال مقرر کیے گئے ہیں، ان کے لیے اپنی ہمتیں صرف کرتے ان کے انتظام اور ان کی تکمیل کے لیے ان کے نفوس پوری کوشش کرتے اور جو چیز انھیں حاصل نہ ہو سکتی اس کے لیے کوشش نہ کرتے اور اس کے درپے نہ ہوتے اور بندے کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ اپنے حال پر غور کرے جس کو قائم کرنا لازم ہے اس کی تکمیل میں جدوجہد کرے۔ پھر بتدریج تھوڑا تھوڑا آگے بڑھتا رہے یہاں تک کہ جو دینی اور دنیاوی علم و عمل اس کے لیے مقدر کیا گیا ہے اسے حاصل کر لے۔ یہ اس شخص کے برعکس ہے جو اس معاملے پر ہی نظریں جمائے رکھتا ہے جہاں تک وہ نہ پہنچ سکا اور نہ اس کو اس کا حکم دیا گیا تھا۔ کیونکہ وہ تفریق ہمت، سستی اور عدم نشاط کی بنا پر اس منزل تک نہیں پہنچ سکا۔ پھر ان کو جو نصیحت کی گئی ہے اس پر عمل کرنے سے جو نتائج حاصل ہوتے ہیں ان کے چار مراتب ہیں: اول: بھلائی کا حصول۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ذکر کیا گیا ہے ﴿ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ ﴾ ’’البتہ ان کے لیے بہتر ہوتا‘‘ یعنی ان کا شمار نیک لوگوں میں ہوتا جو ان افعال خیر سے متصف ہیں جن کا ان کو حکم دیا گیا تھا اور ان سے شریر لوگوں کی صفات زائل ہو جاتیں کیونکہ کسی چیز کے ثابت ہونے سے اس کی ضد کی نفی لازم آتی ہے۔ ثانی: ثابت قدمی اور اس میں اضافے کا حصول ۔ کیونکہ اہل ایمان کے ایمان کو قائم رکھنے کے سبب سے، جسے قائم رکھنے کی انھیں نصیحت کی گئی تھی، اللہ تعالیٰ انھیں ثابت قدمی عطا کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ دنیا کی زندگی میں، اوامر و نواہی میں فتنوں کے وارد ہونے اور مصائب کے نازل ہونے کے وقت انھیں ثابت قدمی عطا کرتا ہے، تب انھیں ثبات حاصل ہوتا ہے اوامر پر عمل کرنے اور ان نواہی سے اجتناب کی توفیق عطا ہوتی ہے نفس جن کے فعل کا تقاضا کرتا ہے اور ان مصائب کے نازل ہونے پر ثابت قدمی اور استقامت عطا ہوتی ہے جن کو بندہ ناپسند کرتا ہے۔ بندے کو صبر و رضا اور شکر کی توفیق کے ذریعے سے ثابت قدمی عطا ہوتی ہے پس بندے پر اس کی ثابت قدمی کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد نازل ہوتی ہے اور اسے نزع کے وقت اور قبر میں ثابت قدمی سے نواز دیا جاتا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کے اوامر کو قائم رکھنے والا بندۂ مومن شرعی احکام کا عادی بن جاتا ہے یہاں تک کہ وہ ان احکام سے مانوس ہو جاتا ہے اور ان احکام کا مشتاق بن جاتا ہے اور یہ الفت اور اشتیاق نیکیوں پر ثبات کے لیے اس کے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
Vocabulary
AyatSummary
[66]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List