Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 4
- SuraName
- تفسیر سورۂ نساء
- SegmentID
- 268
- SegmentHeader
- AyatText
- {64} يخبر تعالى خبراً في ضمنِهِ الأمرُ والحثُّ على طاعة الرسول والانقيادِ له، وأنَّ الغاية من إرسال الرسل أن يكونوا مطاعين ينقادُ لهم المرسَل إليهم في جميع ما آمروا به ونَهوا عنه، وأن يكونوا معظَّمين تعظيمَ المطاع للمطيع ، وفي هذا إثبات عصمة الرُّسل فيما يبلِّغونَهُ عن اللهِ وفيما يأمرونَ به ويَنْهَوْنَ عنه؛ لأنَّ الله أمر بطاعتهم مطلقاً؛ فلولا أنهم معصومون لا يشرعون ما هو خطأ؛ لما أمر بذلك مطلقاً. وقوله: {بإذن الله}؛ أي: الطاعة من المطيع صادرة بقضاء الله وقدرِهِ؛ ففيه إثباتُ القضاء والقَدَر، والحثُّ على الاستعانة بالله، وبيان أنَّه لا يمكَّنُ الإنسان إن لم يُعِنْه الله أن يطيع الرسول. ثم أخبر عن كرمِهِ العظيم وجُودِهِ ودعوته لمن اقترف السيِّئات أن يعترِفوا ويتوبوا ويستغفِروا الله، فقال: {ولو أنَّهم إذ ظَلَموا أنفُسَهم جاؤوك}؛ أي: معترفين بذنوبهم باخِعين بها. {فاستَغْفَروا الله واستغفرَ لهم الرسولُ لوجدوا الله توَّاباً رحيماً}؛ أي: لتاب عليهم بمغفرتِهِ ظُلْمَهم ورَحِمَهُم بقَبول التوبة والتوفيق لها والثواب عليها. وهذا المجيء إلى الرسول - صلى الله عليه وسلم - مختصٌّ بحياتِهِ؛ لأنَّ السياق يدلُّ على ذلك؛ لكون الاستغفار من الرسول لا يكون إلاَّ في حياتِهِ، وأمَّا بعد موتِهِ؛ فإنَّه لا يطلب منه شيءٌ، بل ذلك شركٌ.
- AyatMeaning
- [64] اللہ تبارک و تعالیٰ اوامر کے ضمن میں اور رسول اللہeکی اطاعت اور فرماں برداری کی ترغیب دیتے ہوئے آگاہ فرماتا ہے کہ انبیاء و رسل کو مبعوث کرنے کی غرض و غایت صرف یہی ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے اور جن کی طرف رسول بھیجا گیا ہے وہ اس کے تمام احکام کی تعمیل کریں اور اس کے نواہی سے اجتناب کریں اور وہ اس کی ویسے ہی تعظیم کریں جیسے اطاعت کرنے والا مطاع کی تعظیم کرتا ہے۔ اس آیت میں عصمت انبیاء کا اثبات ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے، حکم دینے اور منع کرنے میں ہر لغزش سے پاک ہیں۔ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوگوں کو انبیاء کرام کی مطلق اطاعت کا حکم دیا ہے اگر وہ منصب تشریع میں خطا سے پاک نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کی مطلق اطاعت کا حکم نہ دیتا۔ ﴿ بِـاِذْنِ اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ کے فرمان کے مطابق۔‘‘ یعنی اطاعت کرنے والے کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے صادر ہوتی ہے۔ پس اس آیت میں قضا و قدر کا اثبات ہے نیز اس میں اس امر کی ترغیب ہے کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہیے نیز اس میں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ انسان اس وقت تک رسول کی اطاعت نہیں کر سکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال نہ ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے عظیم جود و کرم کا ذکر فرمایا ہے اور ان لوگوں کو دعوت دی ہے جن سے گناہ سرزد ہوئے کہ وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کریں، توبہ کر کے اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کریں۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ ﴾ ’’اگر یہ لوگ جب انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا آپ کے پاس آجاتے‘‘ یعنی اپنے گناہوں کا اعتراف اور اقرار کرتے ہوئے آپeکے پاس آتے۔ ﴿ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابً٘ا رَّحِیْمًا ﴾ ’’اور اللہ سے استغفار کرتے اور رسول ان کے لیے استغفار کرتا تو یقینا یہ لوگ اللہ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کا ظلم بخش کر ان کی طرف پلٹ آتا۔ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کر کے ، توبہ کی توفیق اور اس پر ثواب عطا کر کے ان پر رحم فرماتا۔ رسول اللہeکی خدمت میں اس حاضری کا تعلق آپ کی زندگی کے ساتھ مختص تھا۔ کیونکہ سیاق دلالت کرتا ہے کہ رسول(e)کی طرف سے استغفار آپ کی زندگی ہی میں ہو سکتا ہے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ سے کچھ نہ مانگا جائے، بلکہ یہ شرک ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [64]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF