Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
4
SuraName
تفسیر سورۂ نساء
SegmentID
266
SegmentHeader
AyatText
{59} ثم أمر بطاعتِهِ وطاعة رسولِهِ، وذلك بامتثال أمرهما الواجب والمستحبِّ واجتناب نهيهِما، وأمر بطاعة أولي الأمر، وهم الولاة على الناس من الأمراء والحكَّام والمفتين؛ فإنَّه لا يستقيمُ للناس أمرُ دينهم ودُنياهم إلاَّ بطاعِتِهم والانقيادِ لهم. طاعةً لله ورغبةً فيما عنده، ولكن بشرط أن لا يأمروا بمعصية الله؛ فإنْ أمروا بذلك؛ فلا طاعة لمخلوق في معصية الخالق. ولعل هذا هو السرُّ في حذف الفعل عند الأمر بطاعتهم وذِكْرِهِ مع طاعة الرسول؛ فإنَّ الرسول لا يأمر إلا بطاعة الله، ومَنْ يُطِعْهُ؛ فقد أطاع الله، وأما أولو الأمر؛ فشرطُ الأمرِ بطاعتهم أن لا يكونَ معصيةً. ثم أمَرَ بردِّ كلِّ ما تنازع الناس فيه من أصول الدين وفروعه إلى الله وإلى الرسول ؛ أي: إلى كتاب الله وسنة رسوله؛ فإنَّ فيهما الفصل في جميع المسائل الخلافيَّة: إمَّا بصريحهما أو عمومهما أو إيماءٍ أو تنبيهٍ أو مفهوم أو عموم معنى يُقاسُ عليه ما أشبهه؛ لأنَّ كتاب الله وسنة رسوله عليهما بناءُ الدين، ولا يستقيم الإيمان إلاَّ بهما؛ فالردُّ إليهما شرطٌ في الإيمان؛ فلهذا قال: {إن كنتم تؤمنون بالله واليوم الآخر}: فدلَّ ذلك على أنَّ من لم يردَّ إليهما مسائلَ النزاع؛ فليس بمؤمن حقيقةً، بل مؤمنٌ بالطاغوت؛ كما ذكر في الآية بعدها. {ذلك}؛ أي: الردُّ إلى الله ورسوله، {خيرٌ وأحسنُ تأويلاً}؛ فإنَّ حُكم الله ورسوله أحسنُ الأحكام وأعدلُها وأصلحُها للناس في أمر دينهم ودُنياهم وعاقبتهم.
AyatMeaning
[59] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور یہ اطاعت اللہ اور اس کے رسول کے مشروع کردہ واجبات و مستحبات پر عمل اور ان کی منہیات سے اجتناب ہی کے ذریعے سے ہو سکتی ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے اولو الامر کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ اولو الامر سے مراد لوگوں پر مقرر کردہ حکام، امراء اور اصحاب فتویٰ ہیں کیونکہ لوگوں کے دینی اور دنیاوی معاملات اس وقت تک درست نہیں ہو سکتے جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولeکی فرماں برداری کرتے ہوئے اولو الامر کی اطاعت نہیں کرتے مگر اس شرط کے ساتھ کہ اولو الامر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم نہ دیں اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دیں تو خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی فرماں برداری ہرگز جائز نہیں۔ شاید یہی سر نہاں ہے کہ اولو الامر کی اطاعت کے حکم کے وقت فعل کو حذف کر دیا گیا ہے اور اولو الامر کی اطاعت کو رسول کی اطاعت کے ساتھ ذکر فرمایا ہے کیونکہ رسول اللہeصرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں لہٰذا جو کوئی رسولeکی اطاعت کرتا ہے وہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے۔ رہے اولو الامر تو ان کی اطاعت کے لیے یہ شرط عائد کی ہے کہ ان کا حکم معصیت نہ ہو۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ لوگ اپنے تمام تنازعات کو، خواہ یہ اصول دین میں ہوں یا فروع دین میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹائیں۔ یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف ۔ کیونکہ تمام اختلافی مسائل کا حل قرآن و سنت میں موجود ہے یا تو ان اختلافات کا حل صراحت کے ساتھ قرآن اور سنت میں موجود ہوتا ہے یا ان کے عموم، ایماء، تنبیہ، مفہوم مخالف اور عموم معنی میں ان اختلافات کا حل موجود ہوتا ہے اور عموم معنی میں اس کے مشابہہ مسائل میں قیاس کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ کتاب اللہ اور رسول اللہeکی سنت پر دین کی بنیاد قائم ہے ان دونوں کو حجت تسلیم کیے بغیر ایمان درست نہیں۔ اپنے تنازعات کو قرآن و سنت کی طرف لوٹانا شرط ایمان ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ ’’اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جو کوئی نزاعی مسائل کو قرآن و سنت پر پیش نہیں کرتا وہ حقیقی مومن نہیں بلکہ وہ طاغوت پر ایمان رکھتا ہے۔ جیسا کہ بعد والی آیت میں ذکر فرمایا ہے۔ ﴿ ذٰلِكَ ﴾ ’’یہ‘‘ یعنی تنازعات کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹانا ﴿ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا﴾ ’’یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولeکا فیصلہ سب سے بہتر اور سب سے زیادہ عدل و انصاف کا حامل اور لوگوں کے دین و دنیا اور ان کی عاقبت کی بھلائی کے لیے سب سے اچھا فیصلہ ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[59]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List