Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 4
- SuraName
- تفسیر سورۂ نساء
- SegmentID
- 265
- SegmentHeader
- AyatText
- {51} وهذا من قبائح اليهود وحسدِهم للنبيِّ - صلى الله عليه وسلم - والمؤمنين؛ أنَّ أخلاقَهم الرذيلة وطبعَهم الخبيث حَمَلَهم على ترك الإيمان باللهِ ورسوله والتعوُّض عنه بالإيمان بالجبت والطاغوت، وهو الإيمان بكلِّ عبادةٍ لغير الله أو حكم بغير شرع الله، فدخل في ذلك السِّحر والكهانة وعبادة غير الله وطاعة الشيطان، كلُّ هذا من الجبت والطاغوت، وكذلك حَمَلَهُمُ الكفر والحسد على أن فضَّلوا طريقة الكافرين بالله عبدةِ الأصنام على طريق المؤمنين، فقال: {ويقولون للذين كفروا}؛ أي: لأجلهم تملُّقاً لهم ومداهنةً وبغضاً للإيمان: {هؤلاء أهدى من الذين آمنوا سبيلاً}؛ أي: طريقاً؛ فما أسْمَجَهم وأشدَّ عنادهم وأقلَّ عقولهم! كيف سلكوا هذا المسلك الوخيم والواديَ الذَّميم؟! هل ظنُّوا أنَّ هذا يروج على أحدٍ من العقلاء أو يدخل عقلَ أحدٍ من الجهلاء؟! فهل يَفْضُلُ دينٌ قام على عبادة الأصنام والأوثان، واستقام على تحريم الطيِّبات وإباحة الخبائث وإحلال كثيرٍ من المحرَّمات، وإقامة الظلم بين الخَلْق وتسوية الخالق بالمخلوقين، والكفر بالله ورسله وكتبه على دينٍ قام على عبادة الرحمن، والإخلاص لله في السرِّ والإعلان والكفر بما يُعْبَدُ من دونه من الأوثان والأنداد والكاذبين، وعلى صلة الأرحام والإحسان إلى جميع الخَلْق حتى البهائم، وإقامة العدل والقسط بين الناس وتحريم كلِّ خبيث وظلم ومصدق في جميع الأقوال والأعمال؟! فهل هذا إلاَّ من الهذيان؟! وصاحب هذا القول إما من أجهل الناس وأضعفهم عقلاً، وإما من أعظمهم عناداً وتمرداً ومراغمة للحق، وهذا هو الواقع.
- AyatMeaning
- [51] یہ یہودیوں کی برائیوں اور رسول اللہeاور اہل ایمان کے ساتھ ان کے حسد کا ذکر ہے۔ ان کے رذیل اخلاق اور خبیث طبیعتوں نے انھیں اللہ تعالی اور اس کے رسول پر ایمان ترک کرنے پر آمادہ کیا اور اس کے عوض ان کو بتوں اور طاغوت پر ایمان لانے کی ترغیب دی۔ طاغوت پر ایمان لانے سے مراد ہر غیر اللہ کی عبادت یا شریعت کے بغیر کسی اور قانون کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہے۔ اس میں جادو، ٹونہ، کہانت، غیر اللہ کی عبادت اور شیطان کی اطاعت وغیرہ سب شامل ہیں اور یہ سب بت اور طاغوت ہیں۔ اسی طرح ان کے کفر اور حسد نے ان کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ کفار اور بت پرستوں کے طریقہ کو اہل ایمان کے طریقہ پر ترجیح دیں ﴿ وَیَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ ’’اور کفار کے بارے میں کہتے ہیں۔‘‘ یعنی کفار کی خوشامد اور مداہنت کی خاطر اور ایمان سے بغض کی وجہ سے کہتے تھے ﴿ هٰۤؤُلَآءِ اَهْدٰؔى مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلًا﴾ ’’طریقے کے اعتبار سے یہ کفار اہل ایمان سے زیادہ راہ ہدایت پر ہیں۔‘‘ وہ کتنے قبیح ہیں، ان کا عناد کتنا شدید، اور ان کی عقل کتنی کم ہے؟ وہ مذمت کی وادی میں، ہلاکت کے راستے پر کیسے گامزن ہیں؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بات کسی عقلمند کو قائل کر لے گی یا کسی جاہل کی عقل میں آجائے گی؟ کیا اس دین کو جو بتوں اور پتھروں کی عبادت کی بنیاد پر قائم ہے، جو طیبات کو حرام ٹھہرانے، خبائث کو حلال ٹھہرانے، بہت سی محرمات کو جائز قرار دینے، اللہ تعالی کی مخلوق پر ظلم کے ضابطوں کو قائم کرنے، خالق کو مخلوق کے برابر قرار دینے، اللہ، اس کے رسول اور اس کی کتابوں کے ساتھ کفر کرنے کو درست گردانتا ہے ۔۔۔ اس دین پر فضیلت دی جا سکتی ہے جو اللہ رحمن کی عبادت، کھلے چھپے اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص، بتوں اور جھوٹے خداؤں کے انکار، صلہ رحمی، تمام مخلوق حتیٰ کہ جانوروں کے ساتھ حسن سلوک، لوگوں کے درمیان عدل کا قیام، ہر خبیث چیز اور ظلم کی تحریم اور تمام اقوال و اعمال میں صدق پر مبنی ہے؟.... کیا یہ تفضیل محض ہذیان نہیں؟ ایسا کہنے والا شخص یا تو سب سے زیادہ جاہل یا سب سے کم عقل یا حق کے ساتھ سب سے زیادہ عناد رکھنے والا اور تکبر کا اظہار کرنے والا ہے۔ یہ فی الواقع ایسے ہی ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [51]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF