Details

Tbl_FAQBank


Question
هل الدين الذي على المعسر زكاة؟
Question Details
هل الدين الذي على المعسر زكاة؟
QuestionBy
Category
Subject
Answer Heading
Answer Details
كتاب دين كے تنك بناحدی أصول (قرآن كرين وصحيح آحادسي سے ثابت) جو هر مسلمان كو جاننا ضروري هے ترتيب وتلخيص خادم دين مسعود محمدالمدني دین کے تنا اہم اصول: اس کتاب مںس ان تين بنيادي باتوں کا باةن ہے جن کی معرفت حاصل كرنا ہر انسان پر واجب اور ضروری ہے ـ اس کتاب ميں مندرجه ذيل امور كا مختصر بيان هے؛ • خالق كائنات الله تعالی کی پهچان كا بيان هے ، • ظاهري وقلبي عبادات جن کا حکم اللہ تعالی دیا ہے، • دین کی معرفت، اس کے مراتب اور ہر مرتبہ کے ارکان، • نبی کریم ﷺکی معرفت ، آپﷺ کی مختصر سرنت، • نيز بعث بعد الموت، توحدر کے ارکان جسے اہم مباحث پر مشتمل ہے۔ • تنز بنالدی باتںا اور ان کے دلائل • فهرست مضامين ـ= o وہ باتںض، جن کا سکھنا ہر مسلمان کے لے ضروری ہے o حنیفیت یینا ملت ابراہیے سے مراد محض ایک اللہ کی عبادت ہے۔ o عبادت, جس کا اللہ نے حکم دیا ہے,اس کے اقسام o o دوسری بناکدی بات: دین اسلام کو دلائل کے ساتھ جاننا o پہلا درجہ: اسلام o دوسرا درجہ: ایمان o تسررا درجہ: احسان۔ اس کا ایک ہی رکن ہے۔ o تسرری بناھدی بات: نبی محمد صلی اللہ علہی و سلم کو جاننا   تنر بناردی أصول اور ان کے دلائل تالفی : شخا الاسلام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ وہ أصول جن کا سکھناہ هر مسلمان کے لےم ضروری ہے تمهيد بيان ؛ حنیفیت توحدن شرک حنیفیت ؛ یین ملت ابراہیال سے مراد ؛ محض ایک اللہ کی عبادت ہے۔ آپ یہ بات بھی اچھي طرح سمجھ لںی - كه اللہ تعالى اپنی طاعت و بندکی کی طرف آپ کی رہ نمائی کرے- کہ حنیفیت یعنى ملت ابراہی ب سے مراد = یکسو ہو کر صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا ہے۔ اسی مسئله کا حکم اللہ تعالے نے تمام لوگوں کو دیا ہے اور اسی کے لئےص لوگوں كو پدیا کاب ہے۔ جساي کہ ارشاد باری تعالی ہے:{اور مںہ نے جن وانس کو صرف اسی لےك پدیا کا ہے کہ وہ مرہی عبادت کریں۔} [6]”يَعْبُدُوِن“ کے معنی ہںن: مراى توحدو کا اقرار کریں۔ توحدی ؛ اللہ تعالیٰ نے جن چز“وں کا حکم دیا ہے، ان مں سب سے بڑی اور اہم چزر 'توحد ' ہے، جس کے معنی ہں صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا۔ شرک ؛ اسی طرح اللہ نے جن چزُوں سے منع کاو ہے، ان مںے سب سے بڑی اور اہم چزپ 'شرک' ہے، جس کے معنی ہں اللہ کے ساتھ کسی اور کو پکارنا ۔ دللع اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:{اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کی چزک کو شریک نہ کرو۔} [7] وہ کون سی تن بناہدی اصول ہںک ؟ اگر آپ سے پوچھا جائے کہ وہ کون سی تند بناصدی باتں۔ ہںع، جن کی جانکاری رکھنا ہر انسان کے لےکضروری ہے؟ تو کہہ دیےا : بندے کا اپنے رب، اپنے دین اور اپنے نبی یینے محمد ﷺ كا پہچان ۔ پھر: جب آپ سے سوال هو کہ ؛ آپ کا رب کون ہے؟ تو کہہ دیےهو کہ ؛ مروا رب اللہ ہے، جس نے اپنے فضل وکرم سے مرےى اور تمام جہانوں کى پرورش وپرداخت کى اور سب کے لئے ضرورت کی ساری چز یں مہاف کں ۔ وہی مرشا معبود ہے، اس کے سوا مرکا کوئی دوسرا معبود نہں ہے۔ دلل یہ ارشاد باری تعالی ہے:{ساری تعریںان اللہ کے لےہ ہں ، جو تمام عالم کا پروردگار ہے۔} [8] واضح ہو کہ اللہ کے علاوہ ہر چزا 'عالم' مںے داخل ہے اور مںی بھی اسی 'عالم' کا ایک حصہ ہوں۔ اور جب آپ سے سوال هو کہ آپ نے اپنے رب کو کس طرح سے پہچانا؟ تو کہہ دیےوا کہ ميں اپنے رب كو ان كي نشانوچں اور اس کی پداا کی ہوئی چزہوں کے ذریعے سے پہچانا ۔ الله تعالى كا ان کی نشانو ں مںي سے رات ودن اور، چاند وسورج ہںا، جب کہ اس کی پدلا کی ہوئی چز وں مںک ساتوں آسمان اور ساتوں زمنى کے ساتھ ساتھ ان دونوں کے اندر اور ان کے بچ کی ساری چزریں شامل ہںچ۔ دللو اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:{اور دن رات اور سورج چاند بھی اسی کی نشانوعں مں سے ہںپ۔ تم سورج کو سجده نہ کرو اور نہ چاند کو، بلکہ سجده اس اللہ کے لےا کرو، جس نے ان سب کو پد ا کاو ہے، اگر تمھں اسی کی عبادت کرنی ہے۔} [9]سورہ فصلت آیت: 37۔ اور اللہ تعالى کا یہ فرمان بھی:{بے شک تمھارا رب اللہ ہی ہے، جس نے سب آسمانوں اور زمنی کو چھ روز مںے پد}ا کاہ ہے، پھر عرش پر مستوی ہوا ۔ وه رات سے دن کو ایسے چھپا دیتا ہے کہ رات دن کو جلدی سے آ لیہی ہے اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پدلا کاو، ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہںت۔ یاد رکھو, اللہ ہی کے لےر خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا، بڑی خوبودں سے بھرا ہوا ہے اللہ، جو تمام عالم کا پروردگار ہے۔} [10]سورہ الاعراف آیت: 54۔ رب سے مراد معبود ہے۔ اس كي دلل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:{اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو، جس نے تمھںر اور تم سے پہلے کے لوگوں کو پدوا کاس، ییا تمھارا بچاؤ ہے۔جس نے تمھارے لےہ زمنل کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پداا کرکے تمھںہ روزی دی۔ خبر دار! باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو۔} [11]سورہ البقرہ آیت: 21-22۔ مفسر قرآن ابن کثرا رحمہ اللہ فرماتے ہںا: جس نے ان ساری چزفوں کو پدلا کاا، وہی عبادت کا حق دار ہے۔ عبادت جس کا اللہ نے حکم دیا ہے اوراس کے قسميں عبادت جس کا اللہ نے حکم دیا ہے اس کى قسميں، جسے اسلام، ایمان، احسان اور ایسے ہی دعا، خوف، رجا، توکل، رغبت، رہبت، خشوع، خشتا، انابت (رجوع)، استعانہ (مدد طلبی)، استعاذہ (پناہ طلبی)، استغاثہ، ذبح وقربانی اور نذر ومنت اور ان کے علاوہ دیگر ساری عبادتںں, یہ سب اللہ ہی کے لے ہونی چاہییں۔ دللغ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:{اور مسجدیں اللہ کے لںی ہں ۔ پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔} [12]سورہ الجن آیت: 18 چنانچہ جس نے ان مںی سے کوئی بھی عبادت غرماللہ کے لےک کی، تو وه شخص مشرک وکافر هوجاتا هے يعني الله كا منكر قرار پاتا هے ۔ دعاء كي عبادت هونے كي دليل ؛ قرآن كريم سے دللو اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:{جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے، جس کی کوئی دللا اس کے پاس نہںس، اس کا حساب تو اس کے رب کے اوپر ہی ہے۔ بےشک کافر لوگ نجات سے محروم ہںہ۔} [13]سورہ المؤمنون آیت: 117۔ اور حدیث رسول صلى الله عليه وسلم ٍے يه دليل ہے:{دعا عبادت کا مغز ہے۔} [14]ا اس کی دللر یہ فرمان الٰیل ہے:{اور تمھارے رب کا يه فرمان ہے کہ مجھ سے دعا طلب کرو، مںک تمھاری دعاؤں کو قبول کروں گا۔ ینلر مانو کہ جو لوگ مر ی عبادت سے خود سری کرتے ہںه، وه عنقریب ذلل ہوکر جہنم مںع داخل ہوں گے۔} [15]سورہ غافر آیت: 60۔ خوف کے عبادت ہونے کی دللف یہ ارشاد الٰی۔ ہے:{تم ان کافروں سے نہ ڈرو اور مربا خوف رکھو، اگر تم مؤمن ہو۔} [16]سورہ آل عمران آیت: 175۔ امد ورجا کے عبادت ہونے کی دللی یہ ارشاد الٰیی ہے:{تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو، اسے چاہےآ کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت مںد کسی کو بھی شریک نہ کرے۔} [17]سورہ الکھف آیت: 110۔ توکل کے عبادت ہونے کی دلل یہ ارشاد الٰی ہے:{اور تم اگر مؤمن ہو تو تمھں7 اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہے ۔} [18]سورہ المائدہ آیت: 23۔{جو شخص اللہ پر توکل کرے گا، اللہ اسے کافی ہوگا۔} [19]سورہ الطلاق آیت: 3۔ رغبت و رہبت اور خشوع کے عبادت ہونے کی دللی یہ فرمان باری تعالیٰ ہے:{یہ بزرگ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمںخ ﻻلچ، طمع اور ڈر خوف سے پکارتے تھے اور ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے۔} [20] خشتے کے عبادت ہونے کی دلل یہ ارشاد الٰیر ہے:{خبردار! تم ان سے نہ ڈرنا ور مجھ سے ڈرتے رہنا۔} [21]سورہ المائدہ آیت: 3۔ انابت اور رجوع کے عبادت ہونے کی دلل یہ ارشاد الٰیہ ہے:{تم (سب) اپنے رب کی طرف لوٹ پڑو اور اس کی حکم برداری کےع جاؤ۔} [22]سورہ الزمر آیت: 54۔ استعانت (مدد طلبی) کے عبادت ہونے کی دلل یہ ارشاد الٰی{ ہے:{ہم صرف ترری ہی عبادت کرتے ہںا اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہںک۔} [23]سورہ الفاتحہ آیت: 5۔ اور حدیث پاک مںں ہے:"جب تم مدد طلب کرو، تو اللہ تعالیٰ سے ہی طلب کرو۔" [24]۔ استعاذہ (پناہ طلبی) کے عبادت ہونے کی دللت یہ ارشاد الٰی ہے:{آپ کہہ دیے ڈ کہ مںہ لوگوں کے پروردگار کی پناه مں] آتا ہوں۔لوگوں کے مالک کی پناہ مںع۔} [25]۔ استغاثہ کے عبادت ہونے کی دلل یہ ارشاد الٰی[ ہے:{اس وقت کو یاد کرو، جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمھاری سن لی۔} [26]سورہ الانفال آیت: 9۔ ذبح وقربانی کے عبادت ہونے کی دللہ یہ ارشاد الٰی9 ہے:{اور آپ فرما دیےاپ کہ یقینا مر،ی نماز اور مروی قربانی اور مرگا جنار اور مررا مرنا (سب خالص) اللہ رب العالمين کے لے5 ہے۔اس کا کوئی شریک نہںم اور مجھے اسی کا حکم ہوا ہے اور مںر سب ماننے والوں مںی سے پہلا ہوں۔} [27]سور‏ہ الانعام آیت: 162-163۔ اور حديث سے اس کی دللت یہ ارشاد رسالت مآب ﷺ ہے:”جس نے غر1 اللہ کے لےں جانور ذبح کاک، اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔“ [28]۔ نذر کے عبادت ہونے کی دللخ یہ ارشاد الٰیب ہے:{جو نذر پوری کرتے ہں اور اس دن سے ڈرتے ہںپ، جس کی برائی چاروں طرف پھیل جانے والی ہے۔} [29}سورہ الدھر آیت: 7۔   دوسری بناادی بات: دین اسلام کو دلائل کے ساتھ جاننا اسلام کے معنی ہںی توحدص کو اختا ر کرتے ہوئے اللہ کے آگے سپر ڈال دینا، اس کی اطاعت و بندگی کو اختاتر کرتے ہوئے اس کا مطعگ وفرمانبردار ہوجانا اور شرک کی آلائشوں سے پاک رہنا۔ دین اسلام کے کے تنش درجے ہںو: اسلام، ایمان,احسان۔ دين كا پہلا درجہ: اسلام هے اسلام کے پانچ ارکان ہںن: پهلا ركن كلمه شهادت ؛ يعني اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیب نهيں اور محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہںو، دوسرا ركن ـ نماز قائم کرنا، تيسرا ركن زکٰوۃ ادا کرنا، چوتھا ركن ـ رمضان المبارک کے روزے رکھنا اور پانچواں ركن ؛ بتے اللہ كعبه شریف کا حج کرنا۔ اركان كي تشريح دلائل كے ساتھ؛ كلمه شهادت (لا إله الا الله ) يعني کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیا نهيں اور محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہںل كي گواہی دينے کی دلله یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {اللہ نے خود اس بات کی گواہی دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود حقیبا نہںد اور فرشتے اور سب اہل علم بھی (گواہی دیتے ہںل) کہ وہی حاکم ہے انصاف کے ساتھ، اس کے سوا کوئی معبود حقیا نہںر، جو غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔} [29] سورہ آل عمران آیت: 18۔اس کے معنی یہ ہںی کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہںم ہے۔ كلمه (لا الہ) مںر اللہ کے سوا ان تمام چزہوں کی نفی ہے، جن کی عبادت ہوتی ہے۔ اور لفظ (إلا الله) مںک صرف ایک اللہ کی عبادت کا اثبات ہے، جس کی عبادت اور بادشاہت مںم اس کا کوئی شریک و ساجھی شريك نہںز ہے۔ اس شہادت کی تفسرد اللہ تعالیٰ کا اس فرمان ميں مکمل وضاحت کے ساتھ باکن ہے:{اور جب کہ ابراہم (علہ] السلام) نے اپنے والد سے اور اپنی قوم سے فرمایا کہ مںی ان چزفوں سے بزاار ہوں، جن کی تم عبادت کرتے ہو، بجز اس ذات کے، جس نے مجھے پدلا کاپ ہے اور وہی مجھے ہدایت بھی کرے گا۔اور (ابراہم علہا السلام) اسی کو اپنی اوﻻد مں بھی باقی رہنے والی بات قائم کر گئے؛ تاکہ لوگ (شرک سے) باز آتے رہںی۔} [30]سورہ الزخرف آیت: 26-27-28۔ اور اللہ تعالى کا یہ فرمان بھی:(آپ کہہ دیےزف کہ اے اہل کتاب! ایی انصاف والی بات کی طرف آؤ، جو ہم مںی اور تم مںے برابر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائںا، نہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر آپس مںم ایک دوسرے کو ہی رب بنائں ۔ پس اگر وه منہ پھرب لںے تو تم کہہ دو کہ گواه رہو، ہم تو مسلمان ہںا۔} [31]سورہ آل عمران آيت : 64۔ اس بات کی گواہی کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہںد اس کی دللک ارشاد باری ہے:{تمھارےپاس ایک ایسے پغمبر تشریف لائے ہں ، جو تمھاری جنس سے ہںی، جن کوتمھاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے، جو تمھاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہںک، ایمان والوں کے ساتھ بڑے ہی شفقل اورمہربان ہںت۔} [32]سورہ التوبۃ آيت: 128۔ اور محمد صلی اللہ علہ و سلم کے اللہ کے رسول ہونے کی گواہی دینے کا مطلب ہے: • آپ کے دئے گئےحکموں کی تعملہ کرنا، • آپ کی بتائی ہوئی باتوں کو سچ جاننا، • آپ کى منع کی ہوئی چزموں سے دور رہنا • اور آپ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہی اللہ کی عبادت کرنا۔ نماز اور زکٰوۃ کے ساتھ ساتھ توحدب کی تفسری کی مشترکہ دللے یہ ارشاد باری تعالی ہے: {انھں اس کے سوا کوئی حکم نہںر دیا گای کہ صرف اللہ کی عبادت کریں، اسی کے لےع دین کو خالص کرکے اور یکسو ہو کر، نماز قائم رکھںز اور زکوٰة دیتے رہںں۔ ییس ہے دین سدکھی ملت کا۔} [33]سورہ البنہز آیت: 5۔ رمضان المبارک کے روزے رکھنے کی دللح یہ ارشاد الٰیی ہے:{اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کے گئے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کےھ گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ والے ہوجاؤ۔} [34](سورہ البقرہ آیت: 183۔ اور بت] اللہ شریف کا حج کرنے کی دللہ یہ فرمان الٰی ہے:{اور الله کا لوگوں پر یہ حق ہے کہ جو بتس اللہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، وہ اس کا حج کرے، اور جو کوئی اس حکم کی پردوی سے انکار کرے، تو اسے معلوم ہونا چاہےا کہ اللہ دناہ والوں سے بے نایز ہے۔} [35]سورہ آل عمران آیت: 97۔ دين كا دوسرا درجہ: ایمان ـ يعني دل سے تصديق واقرار كرنا ایمان کی ستر سے زائد شاخںی ہں ، جن مں اعلٰی ترین شاخ ”لا إلٰہ إلا اللہ“ کا اقرار ہے اور سب سے ادنٰی شاخ راستے سے ضرر رساں چزنوں کو ہٹانا ہے۔ اور حاا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔ اور ایمان کے چھ ارکان ہں : اللہ پر ایمان لانا، اس کے فرشتوں پر ایا ن لانا، اس کی کتابوں پر ایمان لانا، اس کے رسولوں پر ایمان لانا، قا“مت کے دن پر ایمان لانا اور اچھی و بُری تقدیر پر ایمان لانا۔ ایمان کے ان چھ ارکان کی دللپ اللہ تعالی کا یہ ارشاد گرامی ہے:{ساری اچھائی مشرق ومغرب کی طرف منہ کرنے مں ہی نہںہ؛ بلکہ حققتاً اچھا وه شخص ہے، جو اللہ تعالیٰ پر، قاامت کے دن پر، فرشتوں پر، اللہ کى نازل کردہ تمام کتابوں پر اور نبوچں پر ایمان رکھنے واﻻ ہو۔} [36]سورہ البقرہ آیت: 177۔ اور تقدیر پر ایمان کی دللت یہ فرمان الٰیا ہے:{بے شک ہم نے ہر چزت کو ایک (مقرره) اندازے پر پدہا کا ہے۔} [37]سورہ القمر آیت: 49۔ دين كا تسرًا درجہ: احسان هے۔ احسان كا اس کا ایک ہی رکن ہے۔ احسان كا مطلب یہ ہے کہ آپ اللہ کی عبادت اس طرح کریں، گویا آپ الله تعالى كو دیکھ رہے ہںر۔ اگر یہ كيفيت پدےا نہں کرسکتے، تو اتنا خافل ضرور رکھںا کہ الله تعالى آپ کو دیکھ رہا ہے۔ اس کی دلل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:{ینآپ مانو کہ اللہ تعالیٰ پرہز۔گاروں اور نیک کاروں کے ساتھ ہے۔} [38] سورہ النحل آیت: 128۔ اور اللہ تعالى کا یہ فرمان بھی:{اپنا پورا بھروسہ غالب مہربان اللہ پر رکھ،جو تجھے دیکھتا رہتا ہے، جب تو کھڑا ہوتا ہے،اور سجده کرنے والوں کے درماىن ترہا گھومنا پھرنا بھی۔وه بڑا سننے واﻻ اور خوب جاننے واﻻ ہے۔} [39]سورہ الشعراء آيت: 217-220۔ اور اللہ تعالى کا یہ فرمان بھی:{اور آپ کسی حال مں ہوں اور من جملہ ان احوال کے آپ کہں} سے قرآن پڑھتے ہوں اور تم جو کام بھی کرتے ہو، ہم کو سب کی خبر رہتی ہے، جب تم اس کام مںر مشغول ہوتے ہو۔} [40]سورہ یونس آیت: 61۔ اور حديث رسول صلى الله عليه وسلم سے دللا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے، جو حدیث جبریل کے نام سے مشہور ہے۔ عمر بن الخطاب کہتے ہں كه: "ایک دن ہم لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علہد و سلم کے پاس بٹھےں ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص وارد ہوا۔ اس کے کپڑے بہت ہی سفدم اور اس کے بال بڑے ہی کالے تھے۔ اس پر سفر کے نشانات دکھائی نہں دے رہے تھے اور اسے ہم مں سے کوئی جانتا بھی نہ تھا۔ وہ نبی صلی اللہ علہن و سلم کے قریب بیٹھ گا ۔ اس نے اپنے دونوں گھٹنے نبی صلی اللہ علہم و سلم کے دونوں گھٹنوں کے ساتھ ملائے، اپنی ہتھو اں کو آپ کی رانوں پر رکھا اور آپ سے سوال کاہ: اے محمد! مجھے اسلام کے بارے مںو بتائےس! آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کی ذات کے سوا کوئی معبود برحق نہںھ ہے اور اس بات کی گواہی دے کہ محمد صلی اللہ علہا و سلم اللہ کے رسول ہں اور تو نماز قائم کرے، زکوۃ دے، رمضان کے روزے رکھے اور بتا اللہ کا حج کرے، اسكے لئے جو استطاعت ركھے ۔ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ اس پر ہمں تعجب ہوا کہ یہ شخص آپ سے سوال بھی کر رہا ہے اور پھر آپ کی تصدیق بھی کر رہا ہے۔ اس نے کہا کہ؛ مجھے ایمان کے بارے مںح بتائںر۔ آپ نے فرمایا: تو اللہ كے ، اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں، آخرت کے دن اور بھلی بری تقدیر پر ایمان رکھے۔ اس نے کہا: آپ کی باتںں درست ہں ۔ اس نے سوال کاہ کہ مجھے احسان کے بارے مں بتائںر۔ آپ نے فرمایا: تو اللہ کی عبادت اس طرح کرگویا تو اسے دیکھ رہا ہے۔ اگر تو اسے دیکھ نہں رہا ہے، تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ اسے نے کہا کہ مجھے قارمت کے بارے مں بتائںن۔ آپ نے جواب دیا: قا مت کا علم مجھے تجھ سے زیادہ نہںن ہے۔ اس نے کہا: مجھے قاکمت کی علامتوں کے بارے مںب بتائںد۔ آپ نے فرمایا: لونڈی کا اپنی مالکن کو جنم دینا اور تم یہ دیکھو کہ ننگے پاؤں، ننگے بدن، کنگال اور بکریوں کے چرواہےعمارت بنانے مں فخر و مباہات کے طور پر مقابلہ کرنے لگںک ہںی۔ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہںے کہ اتنا سننے کے بعد وہ چل پڑا۔ کچھ دیر تک ہم وہںگ رہے۔ پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے کہا: اے عمر! کاھ تم جانتے ہو کہ یہ پوچھنے والا کون تھا؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو بہتر معلوم ہے۔ آپ نے کہا: یہ جبریل تھے، جو تمھںو تمھارا دین سکھانے آئے تھے۔" [41]   تسرکی بنالدی أصول : اپنے نبی محمد صلی اللہ علہآ و سلم کو جاننا ہمارے پيغمبر ـ نبی ـ محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم صلی اللہ علہا و سلم ہںو۔ ہاشم کا تعلق قریش سے تھا اور قریش ایک عرب قبلہغ تھا اور عرب خللت اللہ ابراہمب علہب السلام کے صاحبزادے اسماعلہ علہاولسلام کی نسل سے ہںع۔ ان پر اور ہمارے نبی پر درود و سلام ہو۔ 1. آپ کو تریسٹھ سال کی عمر ملی۔ چالسہ سال نبوت سے پہلے بسر ہوئے اور تئسل سال نبی و رسول بننے کے بعد۔ 2. آپ سورۂ علق کی ابتدائی آیتوں کے ذریعے نبی بنائے گئے اور سورۂ مدثر کے ذریعے رسول۔ 3. آپ کى پدٹائش سرزمن مکہ مںو ہوئی تھی۔ 4. اللہ نے آپ کو شرک سے خبردار كرنے اور توحدں کی جانب بلانے والا بناکر بھجا تھا۔ دلل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: {اے کپڑا اوڑھنے والے!کھڑا ہو جا اور آگاہ کر دے۔اور اپنے رب ہی کی بڑائااں باسن کر۔اپنے اعمال کو شرک سے پاک رکھ۔ ناپاکی کو چھوڑ دے۔اور احسان کرکے زیاده لنے کی خواہش نہ کر۔اور اپنے رب کی راہ مںے صبر کر۔} [43] سورہ المدثر آیت: 1-7۔ مذكوره آيات تشريح ؛ ”قُمْ فَأَنذِرْ“ کا معنی ہے: آپ ﷺ لوگوں کو شرک سے ڈرائںڑ اور توحد کی طرف بلائں ۔ "ربك فكبر" کا معنی ہے: آپ توحد کے ذریعے اللہ کی عظمت باسن کریں۔ ”وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ“ کا مفہوم ہے: آپ اپنے اعمال کو شرک سے پاک رکھںی۔ ”وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ“: الرجز کا معنی اصنام (بت) اور ”فَاهْجُرْ“ (ان کو چھوڑ دے) کا مطلب ہے:آپ بتوں سے اور ان کے بنانے اور پوجنے والوں سے دور رہں نز ان اصنام اور ان کے پر ستار مشرکوں سے بزںاری و براءت کا اظہار کریں۔ آپ ﷺ اسی حكم کے مطابق دس سالوں تک لوگوں کو الله كي توحد کی دعوت دیتے رہے۔ دس سال کے بعد آپ ﷺ کو آسمانوں کی سفر (معراج) کرائی گئی اور پانچ وقتوں کی نماز فرض کی گئی۔ آپ ﷺ تن سال تک مکہ مکرمہ مںس نماز ادا کرتے رہے۔ اس کے بعد مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم ملا۔ ہجرت (كا معني)شرک کے علاقے کو چھوڑ کر توحد کے علاقے مںر چلے جانے کا نام ہے۔ شرک کے علاقے سے اسلام کے علاقے کی جانب ہجرت کرنا اس امت پر فرض ہے اور ہجرت قائمت تک باقی رہے گى۔ اس کی دللا یہ فرمان الٰیت ہے:{جو لوگ اپنی جانوں پر ﻇلم کرنے والے ہںھ، جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہںا، تو پوچھتے ہں ، تم کس حال مںے تھے؟ یہ جواب دیتے ہںہ کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے۔ فرشتے کہتے ہں : کاھ اللہ تعالیٰ کی زمنو کشاده نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟ یین لوگ ہںے، جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وه پہنچنے کی بری جگہ ہے؛مگر جو مرد، عورتں: اور بچے بے بس ہںی، جنھںت نہ کسی چارۂ کار کی طاقت اور نہ کسی راستے کا علم ہے،بہت ممکن ہے کہ اللہ ان سے درگزر کرے۔ اللہ درگزر کرنے والا اور معاف فرمانے والا ہے۔} [44]سورہ النساء آیت: 97-99۔ اور اللہ تعالى کا یہ فرمان بھی:{اے مراے ایمان والے بندو! مرکی زمن بہت کشاده ہے، سو تم مر ی ہی عبادت کرو۔} [45]سورہ العنکبوت آیت: 56۔ {اے مر ے ایمان والے بندو! مرجی زمن بہت کشاده ہے، سو تم مر9ی ہی عبادت کرو۔} [45] سورہ العنکبوت آیت: 56۔ مفسر قرآن امام بغوی رحمہ اللہ نے اس آیت کے شان نزول کے بارے مںی کہا ہے:”یہ آیت ان مسلمانوں کے بارے مںو نازل ہوئی، جو مکہ شریف مں رہ گئے تھے اور جنھوں نے ہجرت نہںم کی تھی۔ اللہ نے انھںم ایمان کے وصف سے متصف کر کے پکارا ہے۔“ا اور حدیث سے ہجرت کی دللے رسول اکرم ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہے:”ہجرت ختم نہںں ہوگی یہاں تک کہ توبہ کا سلسلہ ختم ہوجائے اور توبہ ختم نہںر ہوگی یہاں تک کہ سورج پچھم سے نکل آئے۔“ [46] جب مدینے مںت آپ کو استقلال نصبے ہوا، تو اسلام کے بقہل احکامات کا آپ کو حکم دیا گا:، جسےم زکوۃ، روزہ، حج، اذان، جہاد, امر بالمعروف اور ہی عن المنکر وغرمہ دیگر شرائع اسلام۔ اس کے مطابق آپ نے دس سال گذارے۔ آپ صلی اللہ علہ، و سلم کی وفات ہو چکی ہے، لکنا آپ کا دین باقی ہے۔ آپ نے امت کو ہر بھلائی کی راہ دکھائی ہے اور ہر برائی سے آگاہ کا ہے۔ جس خرپ کى طرف آپ نے امت کى رہتمائی کى, اس مںر سر فہرست توحدا ہے نزت اس مںش اللہ کى پسند ورضا کے سارے کام شامل ہں ، اور جس شر اور برائی سے آپ نے ڈرایا ہے, اس منت سر فہرست شرک ہے ساتھ ہی اس مںر تمام وہ کام شامل ہںڈ جو اللہ کو ناپسند اور ناگوار ہں ۔ اللہ نے آپ کو تمام لوگوں کے لے نبی بناکر بھجای اور سارے جنوں اور انسانوں پر آپ کی اطاعت کو فرض کاع۔ اس کی دللں اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:{آپ کہہ دیے ہ کہ اے لوگو! مںپ تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا بھجاب ہوا ہوں۔} [47]سورہ الاعراف آیت: 158۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذریعے دین اسلام کو مکمل کر دیا۔ اس کی دللل یہ فرمان الٰیی ہے:{آج مںا نے تمھارے لے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھر پور کردیا اور تمھارے لےب اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگا ۔}سورہ المائد‏‏ہ آیت: 3۔ آپ ﷺ کی وفات ہو چکی ہے، اس کی دلل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:{یناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہں ،پھر تم سب کے سب قاامت والے دن اپنے رب کے سامنے جھگڑو گے۔} [49]سورہ الزمر آیت: 30-31۔ البعث بعد الموت سارے لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوکر اٹھںف گے۔ اس کی دللگ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: {اسی (زمن مںھ) سے ہم نے تمھںم پدےا کاہ، اسی مں پھر تمھںن واپس لوٹائںپ گے اور اسی سے پھر دوباره تم سب کو نکال کھڑا کریں گے۔} [50]سورہ طہ آیت: 55۔ اور اللہ تعالى کا یہ فرمان بھی:اور اللہ نے تم کو زمن5 سے ایک (خاص اہتمام سے) اگایا ہے ( پدوا کا ہے)،پھر تمہںو اسی مںگ لوٹائے گا اور (ایک خاص طریقہ) سے پھر نکالے گا۔} [51]سورہ نوح آیت: 17-18۔ انسان كے اعمال كل حساب و کتاب کا بدلہ دیا جانا اور اٹھائے جانے کے بعد ان کا حساب و کتاب ہوگا اور انھں ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ دللس یہ ارشاد باری تعالی ہے:{اور اللہ ہی کا ہے، جو کچھ آسمانوں مں ہے اور جو کچھ زمنس مںگ ہے؛ تاکہ اللہ تعالیٰ برے عمل کرنے والوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے اور نیک کام کرنے والوں کو اچھا بدلہ عنایت فرمائے۔} [52]سورہ النجم آیت: 31۔ موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کو جھٹلانے والا کافر ہے۔ دللب یہ ارشاد باری تعالی ہے:{ان کافروں نے خاتل کا ہے کہ دوباره زنده نہ کے جائںن گے۔ آپ کہہ دیےور کہ کواں نہں ، اللہ کی قسم! تم ضرور دوباره اٹھائے جاؤ گے۔ پھر جو تم نے کا ہے، اس کی خبر دیے جاؤ گے اور اللہ پر یہ بالکل ہی آسان ہے۔} [53]سورہ التغابن آیت: 7۔ اللہ نے تمام رسولوں کو خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بناکر بھجا تھا۔ دللے اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:{ہم نے انھںر رسول بنایا ہے، خوش خبریاں سنانے والے اور آگاه کرنے والے؛ تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھجنےا کے بعد اللہ تعالیٰ پر ره نہ جائے۔} [54]سورہ النساء: 165۔ سب سے پہلے رسول نوح علہج السلام اور سب سے آخری رسول محمد ﷺ ہںئ اور آپ ﷺ خاتم النبیین ہںج۔ نوح علہا السلام سب سے پہلے رسول ہںم، اس کی دللب یہ ارشاد الٰیﷺ ہے:{یناً ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے، جسےی کہ نوح (علہم السلام) اور ان کے بعد والے نبووں کی طرف کی تیٰ۔} [55]سورہ النساء آیت: 163۔ اللہ تعالیٰ نے نوح علہا السلام سے لے کر محمد ﷺ تک ہر امت کی طرف رسول بھجےو ہںا، جو اپنی امت کے لوگوں کو صرف اللہ کی عبادت کا حکم دیتے اور ”طاغوت“ کی عبادت سے منع کرتے چلے آئے ہںر۔ دللن اللہ تعالی کا فرمان ہے:{اور ہم نے ہر امت مںل رسول بھجاا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت سے بچو۔} [56]سورہ النحل آیت: 36۔ اللہ تعالیٰ نے تمام بندوں(جن وانس) پر طاغوت کا انکار اور اللہ پر ایمان لانا فرض قرار دیا ہے۔ مفسر امام ابن قمس رحمہ اللہ ”طاغوت“ کی تعریف بالن کرتے ہوئے کہتے ہں : "طاغوت کے اندر وہ سارے معبود، متبوع اور مطاع داخل ہںو، جن کى وجہ سے بندہ اپنى حد سے تجاوز کر جائے۔ طاغوت بے شمار ہں ۔ لکنم سرغنہ پانچ ہںں۔ 1. ابلس اس پر اللہ کی لعنت ہو، 2. وہ انسان جس کی عبادت کی جائے اور وہ اس سے راضی ہو، 3. ایسا شخص جو لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت دے، 4. ایسا انسان جو علم غب مںی سے کسى چز کا دعوى کرے 5. اور ایا آدمی جو اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کو چھوڑ کر کسی اور چزج کی بنا د پر فصلہو کرے۔" اس کی دللا یہ فرمان الٰیی ہے:{دین کے بارے مںع کوئی زبردستی نہںی، ہدایت ضلالت سے روشن ہوچکی ہے، اس لے جو شخص طاغوت (اللہ کے سوا پوجى جانے والى تمام چزٰوں) کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ پر ایمان ﻻئے، اس نے مضبوط کڑے کو تھام لاا، جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے واﻻ، جاننے واﻻ ہے۔} [57}سورہ البقرہ آیت: 256۔ ییھ 'لا إلٰہ إلا اللہ' کا صحح مفہوم و معنی ہے۔ حدیث پاک مں[ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:”دین کی اصل اسلام ہے، اس کا ستون نماز ہے اور اس کی چوٹی جہاد فی سبلف اللہ ہے۔“ [58]۔ واللہ اعلمـ   َكتاب كا ضميمه فهم دين كا چار تقاضے جو هر مسلمان كو جاننا ضر وري هے ميرے ديني بھائو ں اور بهنوں یہ بات اچھی طرح جان لںے -اللہ آپ كو دين خالص كي صحيح علم عطاء كرے اور رحم فرمائے- فهم دين كا چار تقاضے هيں ؛ (1) بنيادي علم دين كو ـ فهم صحابه كے مطابق ـ دلائل كے ساتھ حاصل كرنا ـ (2) پھر اس پر ـ رسول الله صلى الله عليه وسلم كے بتائے هو طريقے پرعمل كرنا ـ (3) اسكے بعد ؛ اس علم وعمل كي بنياد پر اخلاص كے ساتھ الله كي دين كي طرف لوگوں كو بلانا ـ (4) پھر اس دين كي تبليغ كى راه ميں درپشا مشقتيں اور تكليفوں پر صبركرناـ مذكورة چار تقاضوں کی دللل قرآن پاك ميں سورة العصرميں بيان هے ـ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: {شروع اللہ کے نام سے، جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔زمانے کی قسم!بے شک انسان سرتا سر نقصان مںل ہے۔سوائے ان لوگوں کے، جو ایمان لائے، نیک عمل کےو اور (جنھوں نے) آپس مںم حق کی وصت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصحت۔ کی[1] ۔ ان چار تقاضوں كے متعلق امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہںع:”اگر اللہ اپنی مخلوق پر بطور حجت صرف اسی ایک سورت کو نازل فرماتا، تو یہ کافی ہوتی۔“ اسي طرح اور امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا : "اس بات کا با ن کہ علم کی ضرورت قول و عمل سے پہلے ہے۔(جلد 1 صفحہ 45) اس تقاضے کی دللع اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:{سو (اے نبی!) آپ جان لںا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہںر اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں۔} [2]یہاں اللہ نے قول وعمل سے پہلے علم کا ذکر کاا ہے۔"   تمهيد رساله نمبر (2) هر انسان كے لئے تين مطالب الله تعالى كي خالص بندگي كےلئے جاننا ضروري هے آپ یہ بات بھی اچھی طرح جان لںے -اللہ آپ پر رحم فرمائے- کہ ہر مسلمان مرد اور عورت پر تنه مسائل کی جانکاری حاصل کرنا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔ پہلا مسئلہ:الله اور سول كي پهچان اورتعظيم اللہ تعالیٰ نے ہمںي پدرا کاے، روزی دی اور پھر یوں ہی بے کار نہںع چھوڑ دیا، بلکہ ہماری طرف اپنا رسول بھجال۔ اب جو اس رسول کی اطاعت کرے گا، وہ جنت مں داخل ہوگا اور جو اسکی نافرمانی کرے گا، وہ جہنم مںہ داخل ہو گا۔ اس کا دليل اللہ تعالی کا یہ ارشاد ہے:{بے شک ہم نے تمھاری طرف بھی تم پر گواہی دینے والا رسول بھجس دیا ہے، جسےق کہ ہم نے فرعون کے پاس رسول بھجاا تھا۔تو فرعون نے اس رسول کی نافرمانی کی، پس ہم نے اسے سخت (وبال کی) پکڑ مںو پکڑ لا ۔} [3]سورہ المزمل آیت: 15-16 دوسرا مسئلہ: عبادات صرف الله كي شريعت روسل الله كے بتائے هوئے طريقٍ پر كريں اللہ اس بات کو پسند نہںد کرتا کہ اس کی عبادت مںب کسی کو اس کا ساجھی شريك ٹھہرایا جائے۔ چاہے وہ اللہ کا کوئی قریب ترین فرشتہ هو یا اس کا بھجای ہوا نبی ہی کویں نہ ہو۔ اور آج كے بے شمار أولياء هوں اس کی دللی اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:{اور مسجدیں اللہ کے لےہ ہںک۔ پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔} [4]سورہ الجن آیت: 18 تسرکا مسئلہ: الله اور رسول سے دشمنی رکھنے والوں سے برائت كا اعلان جس نے رسول کی اطاعت و فرماں برداری کی اور اللہ کی وحدانتا و یکتائی کو تسلمل کاا، اس کے لےء یہ ہرگز جائز نہں کہ وہ ایسے لوگوں سے ولا ء وعقيدت کا ناطہ رکھے، جو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی رکھتے ہوں؛ خواہ وہ کتنے قریی رشتے دار ہی کوگں نہ ہوں۔ اس بات کی دللد اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:{اللہ تعالیٰ پر اور قاتمت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائںا گے۔ گو وه ان کے باپ، ان کے بٹےی، ان کے بھائی یا ان کے کنبہ (قبلےر)کے(عزیز) ہی کواں نہ ہوں۔ یی لوگ ہںی، جن کے دلوں مں اللہ تعالیٰ نے ایمان کو لکھ دیا ہے اور جن کی تائدو اپنی طرف سے بھیلو ہوئی وحی اور الہی نصرت وربانی احسان سے کی ہے اور جنھںو ان جنتوں مںا داخل کرے گا، جن کے نچےم نہریں بہہ رہی ہںح، جہاں یہ ہمشہی رہںف گے۔ اللہ ان سے راضی ہے اور یہ اللہ سے خوشک ہں ۔ یہ الہی لشکر ہے۔ آگاه رہو، بے شک اللہ کے گروه والے ہی کاماںب لوگ ہں ۔} [5]سورہ المجادلہ آیت: 22 دلائل كے حوالے و مصادر ________________________________________ [1] سورہ العصر آیت: 1- [2] سورہ محمد آیت: 19۔ [3] سورہ المزمل آیت: 15-16۔ [4] سورہ الجن آیت: 18۔ [5] سورہ المجادلہ آیت: 22۔ [6] سورہ الذاریات آیت: 56۔ [7] سورہ النساء آیت: 36۔ [8] سورہ الفاتحہ آیت: 2۔ [9] سورہ فصلت آیت: 37۔ [10] سورہ الاعراف آیت: 54۔ [11] سورہ البقرہ آیت: 21-22۔ [12] سورہ الجن آیت: 18۔ [13] سورہ المؤمنون آیت: 117۔ [14] سنن ترمذی، الدعوات (3371)۔ [15] [16] سورہ آل عمران آیت: 175۔ [17] سورہ الکھف آيت: 110۔ [18] سورہ المائدہ آیت: 23۔ [19] [20] سورہ الانبیاء آیت: 90۔ [21] سورہ البقرہ آیت: 150۔ [22] سورہ الزمر آیت: 54۔ [23] سورہ الفاتحہ آیت: 5۔ [24] سنن ترمذی، صفة القيامة والرقائق والورع (2516) ، مسند احمد (1/308)۔ [25] سورہ الناس آیت: 1-2۔ [26] سورہ الانفال آیت: 9۔ [27] سورہ الانعام آیت: 162-163۔ [28] صححہ مسلم الأضاحي (1978) ، سنن النسائي الضحايا (4422) ، مسند احمد (1/118)۔ [29] سورہ آل عمران آیت: 18۔ [30] [31] سورہ آل عمران آیت: 64۔ [32] سورہ التوبہ آیت: 128۔ [33] سورہ البنہہ آیت: 5۔ [34] سورۃ البقرہ آیت: 183۔ [35] سورہ آل عمران آیت: 97۔ [36] سورہ البقرہ آیت: 177۔ [37] سورہ القمر آیت: 49۔ [38] سورہ النحل آیت: 128۔ [39] سورہ الشعراء آیت: 217-220۔ [40] سورہ یونس آیت: 61۔ [41] صححہ مسلم الإيمان (8)، سنن ترمذي الإيمان (2610)، سنن نسائي الإيمان وشرائعه (4990)، سنن أبی داود السنة (4695)، سنن ابن ماجه مقدمة (63)، مسند احمد (1/52)۔
Answer Footer
مجموع فتاوى العثيمين (18/32))
Answered By
Source Name
Group
Collection
Lang Code
ar
Ref No
Answer Text
UserID
RelatedAnswers
GroupID
Grade ID
Album ID
Location
Show in Month
ShowDateStart
ShowDateEnd
ListingOrder
Ranking
Date Created
IsVisible

Back to List