Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 9
- SuraName
- تفسیر سورۂ توبہ
- SegmentID
- 574
- SegmentHeader
- AyatText
- {103} قال تعالى لرسوله ومَنْ قام مقامه آمراً له بما يطهِّر المؤمنين ويتمِّم إيمانهم: {خُذْ من أموالهم صدقةً}: وهي الزكاة المفروضة، {تطهِّرُهم وتزكِّيهم بها}؛ أي: تطهِّرهم من الذُّنوب والأخلاق الرذيلة، {وتزكِّيهم}؛ أي: تنميهم، وتزيد في أخلاقهم الحسنة وأعمالهم الصالحة، وتزيد في ثوابهم الدنيوي والأخروي، وتنمي أموالهم، {وصَلِّ عليهم}؛ أي: ادع لهم؛ أي: للمؤمنين عموماً وخصوصاً عندما يدفعون إليك زكاة أموالهم. {إنَّ صلاتَك سَكَنٌ لهم}؛ أي: طُمَأنينة لقلوبهم واستبشار لهم. {والله سميع}: لدعائك سمعَ إجابة وقَبول. {عليمٌ}: بأحوال العباد ونيَّاتهم، فيجازي كلَّ عامل بعمله وعلى قدر نيته. فكان النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - يمتثِلُ لأمر الله، ويأمُرُهم بالصدقة، ويبعثُ عمَّاله لجبايتها؛ فإذا أتاه أحدٌ بصدقته؛ دعا له وبرَّك. ففي هذه الآية دلالةٌ على وجوب الزكاة في جميع الأموال، وهذا إذا كانت للتجارة ظاهرة؛ فإنَّها أموالٌ تنمى ويُكتسب بها؛ فمن العدل أن يواسي منها الفقراء بأداء ما أوجب الله فيها من الزكاة. وما عدا أموال التجارة؛ فإن كان المال ينمى كالحبوب والثمار والماشية المتَخذة للنماء والدرِّ والنسل؛ فإنَّها تجب فيها الزكاة، وإلاَّ؛ لم تجبْ فيها؛ لأنَّها إذا كانت للقُنْية؛ لم تكن بمنزلة الأموال التي يتَّخذها الإنسان في العادة مالاً يُتَمَوَّل ويُطلب منه المقاصد المالية، وإنَّما صرف عن المالية بالقُنية ونحوها. وفيها: أن العبد لا يمكنه أن يتطهَّر، ويتزكَّى حتى يخرِجَ زكاة مالِهِ، وأنَّه لا يكفِّرها شيءٌ سوى أدائها؛ لأنَّ الزكاة والتطهير متوقِّف على إخراجها. وفيها: استحباب الدُّعاء من الإمام أو نائبه لمن أدَّى زكاته بالبركة، وأن ذلك ينبغي أن يكون جهراً؛ بحيث يسمعه المتصدِّق فيسكنُ إليه. ويؤخذ من المعنى أنه ينبغي إدخالُ السرور على المؤمن بالكلام الليِّن والدعاء له ونحو ذلك مما يكون فيه طمأنينة وسكونٌ لقلبِهِ. [وأنه ينبغي تنشيط من أنفق نفقةً، وعمل عملاً صالحاً بالدِّعاء له والثناء ونحو ذلك].
- AyatMeaning
- [103] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسولe اور آپ کے قائم مقام کو ان امور کا حکم دیتا ہے جو اہل ایمان کی تطہیر اور ان کے ایمان کی تکمیل کرتے ہیں ، چنانچہ فرماتا ہے: ﴿ خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً ﴾ ’’لیں ان کے مالوں سے صدقہ‘‘ اس سے مراد فرض زکاۃ ہے ﴿ تُ٘طَ٘هِّرُهُمْ ﴾ ’’آپ ان کو پاک کریں ۔‘‘ یعنی آپ ان کو گناہوں اور اخلاق رذیلہ سے پاک کریں ﴿ وَتُزَؔكِّیْهِمْ ﴾ ’’اور ان کا تزکیہ کریں ۔‘‘ یعنی آپ ان کی نشوونما کریں ، ان کے اخلاق حسنہ، اعمال صالحہ اور ان کے دنیاوی اور دینی ثواب میں اضافہ کریں اور ان کے مالوں کو بڑھائیں ۔ ﴿ وَصَلِّ عَلَیْهِمْ ﴾ ’’اور ان کے حق میں دعا کیجیے‘‘ تمام مومنین کے لیے عام طور پر اور خاص طور پر اس وقت جب وہ اپنے مال کی زکاۃ آپ کی خدمت میں پیش کریں ﴿ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ﴾ ’’آپ کی دعا ان کے لیے موجب تسکین ہے۔‘‘ یعنی آپ کی دعا ان کے لیے اطمینان قلب اور خوشی کا باعث ہے ﴿وَاللّٰهُ سَمِیْعٌ ﴾ ’’اور اللہ سننے والا‘‘ یعنی اللہ آپ کی دعا کو قبول کرنے کے لیے سنتا ہے ﴿ عَلِيْمٌ ﴾ ’’جاننے والا ہے۔‘‘ وہ اپنے بندوں کے تمام احوال اور ان کی نیتوں کو خوب جانتا ہے، وہ ہر شخص کو اس کے عمل اور اس کی نیت کے مطابق جزا دے گا۔ نبی اکرمe اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل فرمایا کرتے تھے۔ آپ ان کو صدقات کا حکم دیتے تھے اور صدقات کی وصولی کے لیے اپنے عمال بھیجا کرتے تھے، جب کوئی صدقہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ اسے قبول فرما لیتے اور اس کے لیے برکت کی دعا فرماتے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ تمام اموال میں زکاۃ واجب ہے، جب یہ اموال تجارت کی غرض سے ہوں تو اس کا وجوب صاف ظاہر ہے کیونکہ مال تجارت نمو کا حامل ہوتا ہے اور اس کے ذریعے سے مزید مال کمایا جاتا ہے، لہٰذا عدل کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو زکاۃ فرض کی ہے اسے ادا کر کے فقرا سے ہمدردی کی جائے۔ مال تجارت کے علاوہ دیگر مال، اگر نمو اور اضافے کا حامل ہو، جیسے غلہ جات، پھل، مویشی، مویشیوں کا دودھ اور ان کی نسل وغیرہ تو اس میں زکاۃ واجب ہے۔ اگر مال نمو کے قابل نہ ہو تو اس میں زکاۃ واجب نہیں کیونکہ جب یہ مال خالص خوراک اور گزارے کے لیے ہے تو یہ ایسا مال نہیں ہے جسے انسان عادۃً متمول ہونے کے لیے رکھتا ہے جس سے مالی مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں بلکہ اس سے مالی فوائد کی بجائے صرف گزارہ کیا جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ انسان اپنے مال کی زکاۃ ادا کیے بغیر ظاہری اور باطنی طور پر پاک نہیں ہو سکتا۔ زکاۃ کی ادائیگی کے سوا کوئی چیز اس کا کفارہ نہیں بن سکتی کیونکہ زکاۃ تطہیر اور پاکیزگی ہے جو زکاۃ کی ادائیگی پر موقوف ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ امام یا اس کے نائب کا زکاۃ ادا کرنے والے کے لیے برکت کی دعا کرنا مستحب ہے اور مناسب یہ ہے کہ امام بآواز بلند دعا کرے تاکہ اس سے زکاۃ ادا کرنے والے کو سکون قلب حاصل ہو۔ اس آیت کریمہ سے یہ معنی بھی نکلتا ہے کہ مومن کے ساتھ نرم گفتگو اور اس کے لیے دعا وغیرہ اور ایسی باتوں کے ذریعے سے اس کو خوش رکھا جائے جن میں اس کے لیے طمانیت اور سکون قلب ہو۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [103
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF