Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
4
SuraName
تفسیر سورۂ نساء
SegmentID
288
SegmentHeader
AyatText
{100} هذا في بيان الحثِّ على الهجرة والترغيب وبيان ما فيها من المصالح، فوعد الصادق في وعده أنَّ من هاجر في سبيله ابتغاء مرضاتِهِ أنه يَجِدُ مراغَماً في الأرض وسعة؛ فالمراغَم مشتملٌ على مصالح الدين، والسعة على مصالح الدنيا، وذلك أنَّ كثيراً من الناس يتوهَّم أنَّ في الهجرة شتاتاً بعد الألفة وفقراً بعد الغنى وذلاًّ بعد العزِّ وشدَّة بعد الرخاء، والأمر ليس كذلك؛ فإنَّ المؤمن ما دام بين أظهر المشركين؛ فدينُهُ في غاية النقص؛ لا في العبادات القاصرة عليه كالصلاة ونحوها، ولا في العبادات المتعدِّية كالجهاد بالقول والفعل وتوابع ذلك؛ لعدم تمكُّنه من ذلك، وهو بصدد أن يُفْتَنَ عن دينِهِ، خصوصاً إن كان مستضعفاً؛ فإذا هاجر في سبيل الله؛ تمكَّن من إقامة دين الله وجهاد أعداء الله ومراغمتهم؛ فإنَّ المراغمة اسم جامعٌ لكلِّ ما يحصُلُ به إغاظةٌ لأعداء الله من قول وفعل وكذلك يحصل له سعة في رزقه، وقد وقع كما أخبر الله تعالى. واعْتَبِرْ ذلك بالصحابة رضي الله عنهم؛ فإنهم لما هاجروا في سبيل الله وتركوا ديارهم وأولادهم وأموالهم لله؛ كمل بذلك إيمانهم، وحصل لهم من الإيمان التامِّ والجهاد العظيم والنصرِ لدين الله ما كانوا به أئمة لمن بعدهم، وكذلك حصل لهم مما يترتب على ذلك من الفتوحات والغنائم ما كانوا به أغنى الناس، وهكذا كلُّ مَن فَعَلَ فعلَهم؛ حَصَلَ له ما حَصَلَ لهم إلى يوم القيامة. ثم قال: {ومن يخرج من بيتِهِ مهاجراً إلى الله ورسولِهِ}؛ أي: قاصداً ربَّه ورضاه ومحبَّته لرسوله ونصراً لدين الله لا لغير ذلك من المقاصد. {ثم يدرِكْه الموتُ}: بقتل أو غيره، {فقد وَقَعَ أجرُهُ على الله}؛ أي: فقد حَصَلَ له أجرُ المهاجر الذي أدرك مقصودَه بضمان الله تعالى، وذلك لأنَّه نوى وجَزَمَ وحصل منه ابتداءٌ وشروعٌ في العمل؛ فمن رحمة الله به وبأمثاله أنْ أعطاهم أجْرَهم كاملاً، ولو لم يُكْمِلوا العمل، وَغَفَرَ لهم ما حصل منهم من التقصير في الهجرة وغيرها، ولهذا ختم هذه الآية بهذين الاسمين الكريمين، فقال: {وكان الله غفوراً رحيماً}: يغفر للمؤمنين ما اقترفوه من الخطيئاتِ، خصوصاً التائبين المنيبين إلى ربهم، رحيماً بجميع الخلق رحمةً أوجدتهم وعافتْهم ورزقتْهم من المال والبنين والقوَّة وغير ذلك، رحيماً بالمؤمنين؛ حيث وفَّقهم للإيمان، وعلَّمهم من العلم ما يحصُلُ به الإيقان، ويَسَّرَ لهم أسبابَ السعادة والفلاح، وما به يدركونَ غايةَ الأرباح، وسيرون من رحمته وكرمِهِ ما لا عينٌ رأت ولا أذنٌ سمعت ولا خطر على قلب بشر. فنسأل الله أن لا يحرِمَنا خيره بشرِّ ما عندنا.
AyatMeaning
[100] اس آیت کریمہ میں ہجرت کی ترغیب دی گئی ہے اور ان مصالح اور فوائد کا بیان ہے جو ہجرت میں پنہاں ہیں۔ اس سچی ہستی نے وعدہ کیا ہے کہ جو کوئی اس کی رضا کی خاطر اس کی راہ میں ہجرت کرتا ہے وہ زمین میں بہت سے راستے اور کشادگی پائے گا۔ پس یہ راستے دینی مصالح، زمین کی وسعت اور دنیاوی مصالح پر مشتمل ہیں۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہجرت، وصال کے بعد فراق، غنا کے بعد فقر، عزت کے بعد ذلت اور فراخی کے بعد تنگدستی میں پڑنے کا نام ہے۔ معاملہ دراصل یہ نہیں کیونکہ بندۂ مومن جب تک کفار کے درمیان رہ رہا ہے اس کا دین انتہائی ناقص ہے اس کی وہ عبادات بھی ناقص ہیں جن کا تعلق صرف اسی کی ذات سے ہے جیسے نماز وغیرہ۔ اور اس کی وہ عبادات بھی ناقص ہیں جن کا تعلق دوسروں سے ہے، مثلاً: قولی و فعلی جہاد اور اس کے دیگر توابع۔ کیونکہ یہ اس کے بس کی بات نہیں۔ اور وہ اپنے دین کے بارے میں ہمیشہ فتنے اور آزمائش میں مبتلا رہے گا۔ خاص طور پر جبکہ وہ مستضعفین ’’کمزوروں‘‘ میں شمار ہوتا ہو۔ پس جب وہ دارالکفر سے ہجرت کر جاتا ہے تو اقامت دین کی کوشش اور اللہ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کر سکتا ہے۔ کیونکہ (اَلْمُرَاغَمَۃ) ایک جامع نام ہے اور اس سے مراد ہر وہ قول و فعل ہے جس سے اللہ کے دشمنوں کے خلاف غیظ و غضب پیدا ہو۔ اسی طرح (مُرَاغَمٌ) سے مراد رزق وغیرہ کی فراخی ہے اور یہ چیز اسی طرح واقع ہوئی جس طرح اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی۔ چونکہ صحابہ کرامyنے اللہ کے راستے میں ہجرت کی، اللہ کی رضا کے لیے اپنا گھر بار، اپنا مال اور اپنی اولاد کو چھوڑ دیا اس لیے ہجرت کے ذریعے سے ان کے ایمان کی تکمیل ہوئی، انھیں ایمان کامل، جہاد عظیم اور اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت حاصل ہوئی۔ بنابریں وہ بعد میں آنے والوں کے لیے امام بن گئے۔ اس ایمان کی تکمیل پر انھیں فتوحات اور غنائم حاصل ہوئیں اور وہ سب سے زیادہ بے نیاز ہو گئے۔ اسی طرح، قیامت تک ہر وہ شخص جو ان کی سیرت کو اختیار کرے گا اس کو بھی انھی انعامات سے نوازا جائے گا جن انعامات سے ان کو نوازا گیا تھا۔ پھر فرمایا: ﴿ وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْۢ بَیْتِهٖ مُهَاجِرًا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ﴾ ’’اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرکے گھر سے نکل جائے۔‘‘ یعنی جو شخص صرف اپنے رب کی رضا اور اس کے رسولeکی محبت اور اللہ کے دین کی نصرت کی خاطر ہجرت کے لیے اپنے گھر سے نکلتا ہے اور اس کے سوا اس کا کوئی اور مقصد نہیں ﴿ ثُمَّ یُدْرِكْهُ الْمَوْتُ ﴾ ’’پھر اس کو موت آپکڑے۔‘‘ یعنی پھر قتل یا کسی اور سبب سے اسے موت آ جاتی ہے ﴿ فَقَدْ وَ قَ٘عَ اَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ﴾ ’’تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہوچکا۔‘‘ یعنی اسے اس مہاجر کا اجر حاصل ہو گیا جسے اللہ تعالیٰ کی ضمانت سے اپنی منزل مقصود مل گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے عزم جازم کے ساتھ ہجرت کی نیت کی تھی اور اس پر عملدرآمد کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس پر، اور اس جیسے دوسرے لوگوں پر یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اگرچہ انھوں نے اپنے عمل کو مکمل نہیں کیا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو کامل عمل عطا کر دیا۔ اور ہجرت وغیرہ کے معاملے میں ان سے جو کوتاہی ہوئی اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کو ان دو اسمائے حسنی پر ختم کیا ہے ﴿ وَكَانَ اللّٰهُ غَ٘فُوْرًا رَّحِیْمًا﴾ ’’اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے ان تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے جس کا وہ ارتکاب کرتے ہیں خاص طور پر، وہ اہل ایمان جو توبہ کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ ﴿ رَّحِیْمًا﴾ یعنی وہ تمام مخلوق پر رحم کرنے والا ہے، اس کی رحمت ہی انھیں وجود میں لائی، اس کی رحمت ہی نے انھیں عافیت عطا کی اور اس کی رحمت ہی نے انھیں مال، بیٹوں اور قوت وغیرہ سے نوازا۔ وہ اہل ایمان پر رحم کرنے والا ہے، کیونکہ اسی نے اہل ایمان کو ایمان کی توفیق عطا کی، انھیں ایسے علم سے نوازا جس سے ایقان حاصل ہوتا ہے۔ ان کے لیے سعادت اور فلاح کی راہیں آسان کر دیں، جن کے ذریعے سے وہ بے انتہا فائدہ اٹھاتے ہیں وہ عنقریب اس کی رحمت اور فضل و کرم کے وہ نظارے دیکھیں گے جو کسی آنکھ نے دیکھے ہوں گے نہ کسی کان نے سنے ہوں گے اور نہ کسی بشر کے قلب سے ان کا گزر ہوا ہو گا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ہماری برائیوں کی وجہ سے اپنی بھلائیوں سے محروم نہ کرے۔
Vocabulary
AyatSummary
[100
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List